حوزه/ حجت الاسلام شیخ بشوی نے قلم کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کے بڑے علماء قلمی اجتہاد سے ترجمہ کی تنزلی تک پہنچ گئے ہیں جو ایک المیہ ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجة الاسلام والمسلمین ڈاكٹر یعقوب بشوی نے مدرسہ امام المتقین میں طالب علموں سے گفتگو کرتے ہوئے قلم اور تحقیق کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا ہے سب سے پہلے میں مدرسه امام المتقین کے پرنسپل، اساتذہ کرام اور آپ تمام طلاب عظام کا شکریہ ادا کرتا ہوں که مجھے آپ حضرات کی زیارت کا شرف بخشا الله تعالی اپ سب کو کامیابی عطاکرےمجھےانتهائی خوشی هےکه آج میں آپ عزیزوں کےسامنے هوں اور آپ سےگفتگو کر رهاهوں ۔عزیزو! قلم ایک معجزے کا نام ہے جو ہر انسان کے ہاتھ میں ویا ہے. قرآن جو پیغمبر کا معجزہ ہے اسی طرح قلم بھی معجزه هے اسی وجہ سے پہلی وحی میں ، انسانی تربیت کا جو سسٹم ہے، تعلیم کا جو سسٹم ہے تحقیق کا جو سسٹم ہے پروردگار نے پہلی وحی کے پانچ آیتوں میں مکمل اسے بیان کیا ہے اور اسلام کا پہلا دستور ہی پڑھائی کا ہے اقرا،پڑھ اپ کو کوئی دین ایسا نہیں ملے گاجس کا پہلا دستور علم ہو !.
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دین ہے کہ جو معاشرے کو ظلمت سے نکالنا چاہتا ہے جو معاشرے کو جہالت سے نکالنا چاہتا ہے جو معاشرے کو عناد سے نکالنا چاہتا ہے جو معاشرے کو ہر قسم کی اخلاقی اور اجتماعی برائیوں اور انحرافات سے بچانا چاہتا ہے لیکن کیسے بچائے؟ بچنے کے لیے ہمارے لیےقرآن راه حل پیش کر رہا ہے یہ تینوں پہلی وحی میں یہ پڑھا یعنی ایک مرتبہ" اقرا" کہہ دیا ان آیتوں کی بہت ساری تفسیریں ہیں ان کو کھولنے کی ضرورت ہے چونکہ ہم نےآگے بڑھنا ہے .ایک مرتبه کها اقراء، پھر دوبارہ کہہ رہا ہے "پڑھ "!اس کے بعد کہہ رہا ہے "اپنے رب کے نام سے "جو كریم ہے یعنی اس کی صفت جود و سخام هےکریم جو مانگے بغیر دینے والا ہے جس کے دروازے پر کھٹکھٹانے والے کو بھی ملتا هے اور نہ کھٹکھٹانے والے کو بھی ملتا هے، مانگنے والے کو بھی ملے نہ مانگنے والے کو بھی ملے .الله تعالی یه کیا حکم دے رہا ہے "پڑھ "؟
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اس کے بعد کہہ رہا ہے کہ اقراءوربک الاکرم سوال هوتا هےکیا پڑھ لے ؟اور کیوں؟تعلیم میں رب شناسی اور انسان شناسی کا موضوع مرکزی اور بنیادی حیثیت رکھتاهے قرآن نےجهالت کا مقابله کرنا ہے اور یه مادی اور معنوی بیماریوں سےشفاءاور اس کےتاثرات عالم مادہ اور عالم معنی پر هیں۔بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد "اقراباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم" آیاهےان میں رب دوبارہ ہے یا اسی طرح سورہ الحمد میں بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین، الرحمن الرحیم ،کیوں ان میں تکرار ہے؟ یا ان میں کچھ اور فلسفه هے؟ تو ان چیزوں کو کھولنے کے لیے ہمیں قلم اٹھانے کی ضرورت ہے اسی وجہ سے پروردگار نے اپنی صفت اكرمیت ،
اہل قلم کے حوالے کی هے اگر چاہتے ہو خدا کی اکرمیت کا مظہر بنیں، اگر چاہتے ہو خدا کی اکرمیت معاشرے کو نظر آ جائے تو اس کے لیے قلم اٹھانے کی ضرورت ہے ،اہل قلم خدا کی اکرمیت کی صفت کا مظہر ہے ۔لفظ رب یعنی تربیت کا ایک معنی اس میں هے، رب ،وجود کو رشد دیتا هے۔بعض چیزوں کو نمو و رشد کی ضرورت هے اور بعض چیزوں میں خود آگے بڑھنےکی صلاحیت هوتی هےبعض چیزیں خود آگےنہیں بڑھتی تو جو مربی هےاس کا کام ان کو بھی کھینچنا اور اٹھاناهے۔ اس کو کمال تک پہنچاتا ہے تو جو بھی مربی ہوگا اس کو دو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلا کام اس کی صلاحیتوں کی پرورش کرنا اس کی ظرفیت کی پرورش کرنا اس کے اندر استعداد بڑھانا هے.همارےمعاشرےمیں عموما کہتے ہیں .ایک مرتبه کسی استاد نےکسی شاگرد کے بارےمیں ایسا هی کہا که اس میں استعداد نہیں ہے میں نے کہا سب سے بڑا ظلم یہی کلمہ ہے آپ جج بن کر بیٹھے ہیں آپ کو کیسے پتہ چلا كه ا س میں استعداد نه هے؟کیا آپ انسان کےدرون و باطن په تخصص ومہارت ركھتےہیں ؟یا صرف ہم لوگ کسی کےظاہر کو دیکھ کر فیصله کرتےہیں؟ حالنکه جنہوں نے اپنے زمانے کے بہشتی ، مطهری اور باقر صدر بننا ہے ان کو ہم استعداد کے قید لگا کر رد کرتے ہیں اس طرح ان کےاندر کی صلاحیت اور استعداد ختم ہو جائے .انسان شناسی مشکل ترین کام هےدراصل انسان جب خلیفہ اللہ ہے تو اس میں هر طرح کی صلاحیت موجود هے۔یه خام مال کی طرح هےکارخانه میں جو قالب دے یا جس قالب میں ڈال دیں وه اس قالب میں ڈھلے گا.یہ موم کی طرح ہے موم جب ہمارے ہاتھوں میں آ جائے پھر آپ کی مرضی ہے اس کی جو شکل بنائے آپ اس کو جو شکل دینا چاہے تو اسی طرح یہ انسان ہے انسانی فکر ہے یہ انسانی استعداد ہے ان استعداد کو شکوفہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شکوفہ کیسے کرے؟
حجت الاسلام شیخ بشوی نے کہا کہ قرآن مجید نے حل دیا کہ شکوفہ کرنے کے لیے یہاں پر علم ،مربی اور قلم کی ضرورت هےآیت میں علّم کا فاعل کون ہے؟رب اور قلم کا کیا رابطه هے؟ قلم، جہاں تک ہمارا تجربہ ہے تدریس، تحقیق اور ممبر یہ تینوں الہامات الہی کا مرکز ہے، اگر یہ تینوں مهارتیں کسی میں جمع ہو جائے تو وہ اعلی علمی مدارج اورمنازل پر پہنچ سکتا ہے یہاں پر میرا تجربہ ہے بعض اوقات میں لکھتا بھی ہوں تدریس بھی کرتا ہوں تقریر بھی كرتا هوں آیت وہی ہے جب لکھتا ہوں تو سوچتا ہوں اس کے علاوہ اب کچھ نہیں بچا، جب ممبر پر جاتا ہوں تو کچھ اور دروازے کھل جاتے ہیں انسان حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوا جب اسی کو لے کر تدریس کرتا ہوں تو وہاں کچھ اور دروازے کھلتے ہیں۔ یہ تینوں معلمی، تحقیقی اور بیانی کام ،الہی ہیں تو یہاں پر ضروری هے الہامات الہیہ کا هم حقدار بنیں یعنی اپنےآپ کو جب ہم یهاں پڑھنے آئے ہیں سب سے بہترین بیان آپ کا ہونا چاہیے آج ممبروں پہ اکثر جهلاء اور ان پڑھ لوگ قابض هیں،ہم فقط یا فتوے دیتے ہیں یا س،رونا روتے ہیں ؟ کیوں ہم صرف مسئلہ بیان کرتے ہیں لیکن مسئلے کا حل بیان نہیں کرتے ؟
شیخ بشوی نے مزید کہا کہ یہاں پر جو آتے ہیں دراصل ہمیں جو سسٹم ملا ہے ابھی تک ہم جس سسٹم کے اسیر ہیں اصلا اسلامی معیار كے مطابق نہیں ہے ۔ كیا هم نصاب کی بات نہیں کرتے، ایک نصاب ہے ایک سسٹم ہے جو ہمارے پاس جو سسٹم ہے ابھی وہاں پر ہمارا قرانی نظام کیا ہے ابھی تک قرآن کی مهجور یت ہے کہ ہم نے قرانی نظام سسٹم کو ہی نه لیا ا امام راحل نے جو فرمایا تھا وحدت حوزہ وہ دانشگاہ،آج تک نہ دانش گاہ والوں کو امام کے کلام سمجھ میں آیا ہے نہ حوزه والوں نے سمجھا ہے دو تین نشستیں رکھیں گے چائے پییں گے کھانا کھائیں گے کچھ امام کے کلمات کو ہم بیان کریں گے ہمیں متحد ہونا چاہیے تو کچھ اتحادکی باتیں کریں گے .کیا امام کا نظریہ یہی تھا ؟ امام کا نظریہ یہ تھا جو یونیورسٹی والے ہیں وہ بھی آپ کے امام جماعت بن سکے وہ بھی اجتہاد کر سکے آپ جو مدارس کے نام پر ہیں آپ بھی وهاں جا کر نجوم پر گفتگو کریں آپ بھی جا کر عالم کے پوشیدہ رازو ں کو کشف کریں، فقط اتحاد کی با ت نہیں ہے بلکہ منحل ہونا ہے . آج ہم دنیا کے سامنے کچھ کیوں نہیں پیش کر رہے کیوں؟الله تعالی نےقلم کی طاقت دی یه اتنی بڑی عظمت والاهے خداوند عالم نے پہلی وحی میں پانچ آیتیں نازل كیں تو پانچ آیتوں میں تین کو جوڑا ہے قلم کے ساتھ اور فرمایا کہ قلم کی تعلیم مجھے خود الله دیتا ہے یعنی معلم خود رب ہے ،قلم کا کمال یہ ہے کہ یہ پورے زمانے میں جو بھی اس سےمتصل هوگا اس کو عالم بناتا جائے گا
اور اسی طرح ایک مکمل سورہ ہے سورہ مبارکہ قلم ،جس میں تین قسمیں ہیں، اس کے بعد پروردگار عالم اگے بڑھتا ہے تین قسموں کے وقت کچھ نہیں کہتا دیکھو جب بندہ قسم کھائے تو پھر اہل عقل کے لیے قرآن کہتا ہے وہ غور کیوں نہیں کرتے؟ خدا کو ضرورت کیوں پڑی دوات، قلم اور تحریر کی قسم کھائے ؟یعنی ان تینوں چیزوں کا تعلق انسانی مقدر سے ہے ،انسانی معاشرے سے ہے ،معاشرے کو اگر آپ کمال تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو یہی محققین آگے لے کر جائیں گے جو قلم کے ذریعہ لکھتے ہیں آج کل ہمارے معاشرے میں علمی چوری کیا کم نہیں ہے ؟
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ ایک بندہ راتوں رات محقق بن جاتا ہے اس سے بڑا ظلم ،قلم کے ساتھ اور نہیں ہے اس سے بڑا ظلم ،اپنے اوپر نہیں ہے اس سے بڑا ظلم، مکتب کے اوپر نہیں ہے .مالی چوری هو یاقلمی ، چوری، چوری ہے بینک سے چوری کرے یا کسی کے گھر سے چوری کرے یا کسی کے جیب یا کسی کےعلمی آثار کو چرائے !آج ہمارے پاکستانی معاشرہ دیكھیں ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہمارے علماءاهل قلم تھے سو سال پہلے كی تفسیریں ہیں .سو سو کتاب، آج سے سو سال پہلے جہاں پر بجلی بھی نہ تھی ،کاغذ کا مسئله تھا اس زمانے میں کتنی زحمتیں تھی آیت اللہ ہمارے پاکستان اور ہندوستان کے تقسیم سے پہلے وہاں سے نکلتے تھے اسی طرح اجتہادی دروس ہوتے تھے پوری دنیا میں ہم نے اس نظام قلم کو لے کر جانا ہے آج همارےہاں علمی تنزلی هوئی هے آج كا یہ حال ہے کہ پاکستان ہندوستان میں فقط مترجم رہ گئے ہیں !ہم عاشورہ مناتے ہیں عاشورہ یہ ہے آپ علمی طور پر کہاں جا رہے ہیں؟ علمی طور پر جو ملک کسی کا غلام رہے گا وہ جسمی طور پر بھی غلام رہے گا یہ نہیں ہے علمی طور پر ہم غلامی کریں ،زبان سےآزادی کا نعره لگائے۔کہتے ہیں ہم آزاد ہیں نہیں! آپ کا جسم آپ کی فکر کی تابع ہے فکر جو حکم دے گی جسم وہی کرے گا .
حجت الاسلام والمسلمین شیخ بشوی نے مزید کہا کہ ہمارے تحقیقی معیار یہ هے ایک بندہ خدا کو جب جمع آوری کرنے کا طریقہ آتا ہے تو وہ آپ سے بات نہیں کریں گے کہ میں تو بڑا محقق بن گیا !جی جس کو فقط جمع آوری کا طریقہ آتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ سب سے بڑا محقق میں ہوں یا میری تو اتنی کتابیں ہیں۔ سؤال یہ ہےکہ کیا اس میں کوئی جدید علمی نظریہ ہے میرے اتنے مقالات ہیں چلو کوئی جدید مسئلہ آپ نے پیش کیا؟ راه حل پیش کیا یا کوئی نئی چیز آپ نے استخراج کی هے؟ اگر ایسا کیا ہے تو لائق تحسین ہے آپ کہیں پر پہنچ رہے ہیں وگرنہ ادھر سے کچھ اقوال ادھر سے کچھ اقوال ان کو جمع کرنا یہ تحقیق نہیں ہے یہ پہلا مرحلہ قلم کا ہے ابھی ہم سب اسی پہلے مرحلے پر بھی نہیں ہیں ۔ اپ کے لیے ایک انتهائی خوبصورت حدیث ہدیہ کرتاهوں کیا خوبصورت سیاسی اجتماعی حدیث ہے اس حدیث کو ہر جگہ لکھنا چاہیے جی جو اپنے زمانے کے رہبر کو اکیلاچھوڑتا هےمددکے وقت وہ سو جاتا ہے رہبر پکارے وہ اس کی پکار پہ لبیک نه کهےاس آواز نہ سنے وه اپنی سزا کاٹےگا اور دشمن کےقدموں اور پیروں تلےپامال هوجائےگا:« سلام: مَنْ نَامَ عَنْ نُصْرَةِ وَلِیِّهِ انْتَبَهَ بِوَطْأَةِ عَدُوِّهِ».از جمله رهبر کی نصرت،قلمی نصرت هے.
انہوں نے کہا کہ قرآن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے قلم اٹھاؤ قلم کا کام ذاتی نہیں ہے ٹھیک ہے لکھنے والا شخص هے کسی نے لکھا ہے لیکن اس کے جو آثار و ثمرات ہیں یہ نسلوں کی پرورش کرے یہ نسلوں کو بنانے کے لیے ہے اسی وجہ سے تو کیا خوبصورت حدیث ہے علم یہ فرّار ہے یہ بھاگ جائے گا آج جو علم سن لیا آپ نے اگر اس کونہ لکھا تواس کے بعد وه علم دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گا اسی وجہ سے معصوم دستور یہ دے رہا ہے کہ جہاں سے کوئی حکمت کی بات ملے جہاں کوئی علم کی بات ملے فوری طور پر لکھا کرو کبھی آپ کو استاد ایک جملہ دے اسی ایک جملے پہ آپ کتاب لکھ سکتے ہیں اس ایک جملے پر آپ عشرے پڑھ سکتے ہیں اسی ایک جملے سے آپ کیا کیا نهیں کر سکتے !دراصل یہ چیزیں کیا ہیں ؟آپ کے ہاتھوں میں چابیاں دیتے ہیں چابیاں، آپ جب چابی کھولیں گے تو آپ کے لیے بہت سارے مجہولات معلومات بن جائیں گے۔
حجت الاسلام شیخ بشوی نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب بھی فرماتے ہیں کہ دیکھو قلم اٹھاؤ ان چیزوں پر قلم اٹھاؤ جن پر اٹھانےکی ضرورت هو میں نے ایک نشست میں نجف اشرف عراق میں عرض کیا تھا آپ اہل قلم ہو اور مرجع کوئی اور ہو آپ اہل تحقیق ہو مرجع کوئی اور هو یہ ممکن نہیں ہے البتہ کتنے دردوں کو ہم بیان کر رہے ہیں ہمارے ہاں اب یہ فقہ و اصول پر کام ہو رہا ہے تکرار مکررات ت،کرار پہ تکرار لیکن فقہ اجتماعی پہ کام کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ دراصل فقہ اجتماعی بیان کرنے کے لیے قرآن و سنت ہے ہم نے ان کو احکام تک محدود کیا خود قرآن میں ایک حصه احکامات هیں، آپ کو قرآن سے اعتقاد كی آیتوں سے احكامات ملیں گے آپ کو قرآن سے اخلاق کی آیتوں سے بھی احكامات ملیں گے آپ کو قرآن کی اجتماعی آیتوں سے بھی احكامات ملیں گے اور اسی طرح سیاسی آیتوں سے بھی احكامات ملیں گے ہم نے فقه کو انتہائی محدود کر کے رکھا ہے . فقاہت ،براه راست دین کو سمجھنا ہے اور اسی میں بہت سارے شرعی مسئلے کو کھولیں گے کتنے ایسے مسائل اور معارف ہیں کہ ان سے ہم شرعی مسائل نکال سکتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ دیکھو آپ جو قلم اٹھائیں گے وه کسی علمی مسئله کو حل کرنے کےلیےہے آج ہم عراق میں جائیں گے تو آیت اللہ حافظ بشیر صاحب کا نام وہاں پر روشن ہے
آپ ان کو مانے یا نہ مانے ان کا نام ہے ٹھیک ہے عراق میں پاکستانی مزدور ہیں جن کو پکڑ کے جیلوں میں ڈالتے ہیں وہاں جیلوں سے نکالنے والے کا نام بھی آیه الله حافظ بشیر ہے ہمیں اپنے بزرگوں کا احترام بھی کرنا چاہیے ان کو عزت دے .یہ بات نہیں ہے کہ ہر ایک ہماری فکر کے تابع بن جائے ،نہیں یہ دیکھیں اسلام کی کچھ خدمت ہو رہی ہے ؟آپ کے پاس ایک صلاحیت ہے ان کے پاس ایک استعداد هے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق کام کر رہے ہیں ہم ہر ایک کو اپنے عینک اور اپنی نگاہ سے نہ دیکھے اسلام کی نگاہ سے ہم دیکھیں گے تو فکر تبدیل ہو جائے گی اس وقت بهت ساری چیزیں تبدیل ہو جائیں ہمارے پاکستانیوں میں ایک جو بری صفت ہے وہ شخصیت کاذب بنانا ہے ! رہبرمعظم انقلاب نے جو قلم کے دوسرے کام کا ذکر کیا وه معاشرتی مسائل کو حل کرنا ہے۔ آپ ایک دینی طالب علم ہونے کے اعتبار سے معاشرے میں مسائل حل کر سکتے ہیں بعض موضوعات میں کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی ہم فتوے كے لئے گھومتے ہیں کیونکه ہم حوزه علمیہ میں لکیر کے فقیربنے ہوئے ہیں! میں نے یہ بات نجف میں بھی کی تھی ہم لوگ علم میں بھی مقلد ہیں تحقیقی میدان میں بھی مقلد ہیں ہم پہلے ایک فرضیه اپنے ذہن میں بناتے ہیں اس کے بعد مستند سازی کرتے ہیں یه اصول تحقیق کےخلاف هے محقق کی پہلی نشانی ،ذهن کا خالی هوناہے . آپ ذہن کو خالی رکھ کر کسی بھی مسئلے کو جاننے کی کوشش کرے اس کی گہرائی تک جانے کی کوشش کرے آج ہمارے مسائل بهت ہیں ان مسائل کے لیے ہمیں نصاب بھی بنانا ہے ہمیں ماہرین بھی بنانے کی ضرورت ہے۔
آخر میں انہوں نے مزید کہا کہ حوزہ علمیہ قم میں ماہرین کی تربیت کی ضرورت هے۔ ہزاروں ماہرین کی تربیت ہو کیونکہ یہ معاشرے کی ضرورت هے لیکن ہم وہی سنتی ایک روش په آج بھی قائم ہیں یه وہ روش اور نصاب هےجس میں تبدیلی اور استحکام کی اشد ضرورت هے.ایک دور تقیہ كا دور ہے شیعه ظاهرکرنامشکل امر تھا ہم اپنے آپ کو شعیه ظاهر نهیں کرسکتےتھے بلکه سنی کے طور پر پیش کرتے تھے ہم اپنے آپ کو شیعہ نہیں کهلاتے تھے کیوں اگر شیعہ کہہ دے تو ہماری جان کو خطرہ تھا اس دور میں مدارس کا جو نصاب بنا ہےوه اسی دور کی شرائط کےمطابق بنا تھا. 21ویں صدی میں آپ کی ضرورت ،میری ضرورت اور ہم سب کی ضرورت ہے جدید اور مضبوظ نصاب بنائیں اب همارے مخاطبین چھ ارب انسان هیں ان کے لیے ہمارے پاس کیا پروگرام ہے ؟یہ نصاب چھ ارب انسانوں کے لیے ہونا چاہیے تو کیسے هوگا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ نصاب کیوں نہیں بن رہا؟ میں نے پہلے کہا ہم علم میں محقق نہیں بلکه مقلد ہیں!