تحریر:- مولانا رضی حیدر زیدیہمارے معاشرہ کی خواتین شوہر کی وقتی تنگ دستی کو برداشت نہیں کرپاتیں ، اگر وہ حضرت زہرا ؑکی سیرت کو اپنا لیتیں تو معاشرہ میں اتنا زیادہ لفظ طلاق سنائی نہ دیتا |
آج کے معاشرہ کی یہ حالت ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو سمجھانے کے بجائے خود شوہر سے بولتا ہے :تم نے یہ چیز ہماری بیٹی کونہیں دلائی،فلاں جگہ نہیں لے کر گئے!۔حضرت فاطمہؑ نے اپنی پوری زندگی میں حضرت علیؑ سےکبھی کوئی ایسا سوال نہیں کیا جس کے پورا کرنے سے عاجز رہے ہوں،ایک مرتبہ حضرت فاطمہؑ بیمار ہوئیں تو حضرت علیؑ نے ان سے فرمایا: کچھ کھانے کو دل چاہ رہا ہو تو بتائیں!، حضرت سیّدہ (سلام اللہ علیہا ) نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت علیؑ نے اصرار کیا تو عرض کی: میرے پدرِ بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ بیٹی علیؑ سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا،ممکن ہے علیؑ اسے پورا نہ کر سکیں ، ایسی صورت میں تو ان کے دل کو تکلیف ہوگی۔ اسی لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ اس کے بعد بھی حضرت علی ؑنے بہت اصرار کیا تو فاطمہؑ نے انار کی خواہش ظاہر کی۔حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ میں کبھی کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا اور دونوں نے باہم خوشگوار زندگی گزاری ۔
ہمارے معاشرہ کی خواتین شوہر کی وقتی تنگ دستی کو برداشت نہیں کرپاتیں ، اگر وہ حضرت زہرا ؑکی سیرت کو اپنا لیتیں تو معاشرہ میں اتنا زیادہ لفظ طلاق سنائی نہ دیتا۔ حضرت فاطمہؑ زہرااور حضرت علیؑ کو ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں بہت سخت معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔(ابنسعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج8، ص25 ) یہاں تک کہ بعض موقعوں پر بچے بھی بھوکے رہے ہیں ۔(مجلسی، بحارالانوار، ج43، ص72)مگر حضرت فاطمہ زہراؑنے کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت حضرت علیؑ سے نہیں کی بلکہ اون کات کر گھر کے اخراجات پورا کرنے میں اپنے شوہر کی مدد بھی کرتی رہی ہیں ۔(خوارزمی، المناقب، ص268)
حضرت فاطمہؑ گھر کے اخراجات پورا کرنے میں نہ صرف یہ کہ معاشی مدد کرتی تھیں بلکہ گھر کے اندرونی امور بھی خودانجام دیتیں اور باہر کے امورحضرت علیؑ انجام دیتے تھے( حمیری قمی، قرب الإسناد، ص52) آج کی خواتین گھر کا کام انجام دینے کیلئے شوہر سے نوکرانی کی بات کرتی ہیں کہ مجھ سے اتنا سارا کام نہیں ہوتا اور اگر شوہر کی طرف سے تاخیر ہوجائے تو پھر شوہر سے کڑوے لہجہ میں بات کرتی ہیں جس کا اثر رشتہ داروں اور معاشرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ کامیاب خاندان کو اپنے لئے نمونہ عمل نہیں بنایا ، حضرت فاطمہ زہراؑ کو اگر ان کے مہربان بابا نے کنیز پیش بھی کی تو اس سے بھی گھر کا سارا کام نہیں کرایا ،یہ ہے کامیاب خاندان کہ جس کا اثر آج تک دنیا دیکھ رہی ہے اور قیامت دیکھتی رہے گی۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرمؐ نے فضہ کو بطور کنیز آپ کی خدمت میں بھیجا تو اس وقت بھی ایک دن گھر کے سارےامور خود انجام دیتی تھیں اور دوسرے دن فضہ انجام دیتی تھیں ۔( الانصاری الزنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء،ج17، ص429)
کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ یہ کنیز ہے، ہر روز گھر کا سارا کام یہ کرے گی بلکہ ان کو اپنے جیسا انسان سمجھا اور ساتھ مل کربرابر کام کیا۔ خواتین کو شوہر کے شرعی رجحانات کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ ان رجحانات پر عمل کرنے کا خاندان پر ایک خاص اثر ہوتا ہے ۔مگر معاشرہ میں اس طرح کی خرابیاں سننے کو ملتی ہیں کہ اگرشوہر اپنے گھر والوں کی مدد کرنا چاہے تو بیوی مانع ہوجاتی ہے، کیوں؟ اسلئے کہ حضرت فاطمہؑ کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل نہیں بنایا ہے ، اگر بناتیں تو معاشرہ میں اس طرح کی بات سننے کو نہ ملتیں، حضرت فاطمہ زہراؑنے اپنے شوہر کے گھر والوں کی مدد ہی نہیں کی بلکہ معاشرہ میں ضرورت مند افراد کو دیکھا اور اپنے شوہر کے رجحانات کو سمجھا تو لوگوں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پرمقدم کیا تاکہ معاشرے کو انسانیت کا درس دیاجا سکے ۔ کامیاب خاندان بنانےکے لئے حضرت فاطمہ زہراؑ کی سیرت اور کردار کے نمایاں پہلو ؤ ں کو اپنانا ہوگا۔ جس وقت آپؑ نے حضرت علیؑ کے ساتھ مشترکہ ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت آپ کی معاشرتی اور مالی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی لیکن اس وقت بھی آپؑ نے سادہ زندگی گزاری اور اس حالت میں بھی آپؑ نے خدا کی راہ میں انفاق کے ذریعہ سخاوت اور ایثار کے اعلیٰ نمونے قائم کئے۔( طبرسی، مکارم الاخلاق،ص94 و 95] اپنا لباسِ فاخرہ بھی محتاج کو دے دیا(مرعشی نجفی، شرح احقاق الحق، کتابخانہ مرعشی نجفی، ج19، ص114)کسی فقیر کو اپنا گردن بند عطا کردیا[ طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص218 و 219) اور تین دن تک اپنا اور اپنے اہل و عیال کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے دینا؛ آپؑ کی زندگی میں سخاوت کے اعلیٰ نمونوں میں سے ہے۔( اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ج1، ص169)حدیث و تفسیر کی روشنی میں جب فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ نے مسلسل تین دن روزہ رکھا اور افطاری کے وقت پورا کھانا ضرورتمندوں کو دے دیا تو خدا کی طرف سے سورہ انسان کی آیات 5 سے 9 تک نازل ہوئیں جو آیات اطعام کے نام سے مشہور ہیں۔( ابن طاووس، الطرائف، مطبعۃ الخیام، ص107-109؛ طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، ج10)
اگر معاشرہ کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ سے زندگی کے اصول سیکھنے پڑیں گے ۔حضرت فاطمہ زہراؑ اپنے شوہر حضرت علیؑ کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ نے شادی کے بعد نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰؑ کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، معاشرتی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت ،گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔فاطمہؑ اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔فاطمہ زہراؑ نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الہٰی کو سر چشمہ نبوت سے حاصل کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی شادی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ جناب فاطمہؑ ایک ایسی مسن سمجھدار خاتون کی طرح کہ جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں، اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔اس طرح آپ نے اپنے خاندان کو کامیاب بنایا اور جب معاشرہ میں خرابیاں داخل ہوگئیں تو آپ کے پرورش یافتہ فرزندوں نے ان خرابکاروں کو فنا کرکے معاشرہ کو روشن کردیا۔
اگر ہمارےمعاشرہ کی خواتین حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کی زندگی کے اصول سیکھ کر ان کوعملی جامہ پہنائیں گی تو خاندان اور معاشرہ کامیابی کی طرف گامزن ہوسکے گا۔ والحمد للہ رب العالمین ۔پروردگار سے دعا ہے کہ پالنے والے بحق حضرت فاطمہ زہراؑ تمام خواتین کو سیرت بنت رسولؑ پر عمل کرنے کی توفیق عطافرما اور ہم سب کو معاشرہ کا ایک اچھا فرد بننے کی توفیق عطا فرما ۔ "آمین"۔
والسلام سید رضی زیدی
تحریر:- مولانا رضی حیدر زیدی
(حوزہ نیوز ایجنسی)