Type Here to Get Search Results !

پوری کائنات کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی وصیت!

 



تحریر:- سیدہ ایلیا زیدی زیدپوری 


زینب پکاری آۓ میرے سُلطان الوداع 

بابائے مہرباں تیرے قربان الوداع

ایسی بھی کارگر نہیں ضربت کوئی ہوئی
کیسی یہ عید آئی کہ پہلے غمی ہوئی۔

     آج حسن حسین یتیم نہیں ہوئے۔ آج زینب یتیم نہیں ہوئی۔ آج اُم کلثوم یتیم نہیں ہوئی۔ بلکہ آج پوری عالم انسانیت یتیم ہوئی۔

نہ پوچھ آج ہم سے یہ صدمہ عظیم ہے
مر جائے جیسکا باپ وہ اُمت یتیم ہے۔

مولا علی علیہ السّلام کے غم میں سارا جہان رو رہا ہے۔ 
فضائے رو رہی ہیں، ہوائے غم زادہ ہیں، زمین و آسمان خاک اڑا رہے ہیں، سب غم زادہ ہیں ،گریہ کناں ہیں۔ 

وہ ملائیکہ جو دن و رات تسبیح علی کیا کرتے تھے وہ رو رہے ہیں۔ 

وہ جبرائیل جو پروں کو بچھایا کرتے تھے وہ رو رہے ہے۔

جنوں و انس رو رہے ہیں۔

خُدا وندعالم نے مولا علی علیہ السّلام کو نمونہ بنا کے بہچا،

 علی کو دیکھو بلندی سمجھ میں آئے گی۔ سجدہ سمجھ میں آئے گا، ریاضت سمجھ میں آئے گی۔

اگر علی کے قریب آؤ گے تو علم سمجھ میں آئے گا، یتیموں کی مدد سمجھ میں آئیگی، کمزوروں کو کس طرح سہرا دیا جاتا وہ سمجھ میں آئے گا، بھوکوں کو کھانا کھلانا علی سے سیکھے، یتیموں کی سر پرستی علی سے سیکھے۔ 

وہی دنیا کا والی آج دُنیا سے اُٹھ گیا۔ آج  اکیس رمضان ہے ۔ کوفے میں کہرام برپا ہوا کی علی شہید کر دیے گئے۔ 
 
یہ سال بڑے غضب کا سال ہے ہم آپنے مولا کا تابوت نہ اُٹھا سکے، مجلسوں و ماتم نہ کر سکے، ہر ایک کے لب پر یہی فریاد و فغاں ہیں۔
 
آج بھی لوگ ویسے ہی رو رہے ہے جیسے کوفے سے رونے کی آواز آ رہی ہو، ہماری جان قربان ہو  جائے مولا علی پر۔

چودہ سو برس گزرنے کے بعد آج ہمیں نید نہیں آتی  تو زینب کو کیسے نید آئی ہوگی، حسن حسین کو کیسے نید آئی ہوگی، ام کلثوم کو کیسے نید آئی ہوگی، جب انہوں نے بابا کو زخمی حالت میں دیکھا ہوگا۔ 

کوفے کے میدان میں آئے دیر تک سجدہ کیا، سجدہ کو تمام کرنے کے بعد بیت الشرف میں تشریف لائے تلاوت کی اُسکے بعد بیٹی کو آواز دی کی بس میری ایک تمنّا ہے میرے کفن پر جوشن کبیر لکھ دینا۔ اسکے بعد حجرے سے باہر آئے آسمان کی طرف دیکھا کہا-  

*انا للہ و انا الیہ رجعون*
 
یہ سننا تھا کی بیٹی بابا کے قریب آئی ہاتھوں کو جوڑ کر کہا: بابا آپ تو آپنی شہادت کی خبر دے رہے ہے بابا۔ فرمایا نہیں بیٹا یہ امر حق تھا جو میری زبان پر جاری ہوا۔ اسکے بعد آپ عبادات میں مشغول ہو گئے۔

19 کی شب آئی جیسے شبِ ضربت کہتے ہیں، یہی وہ رات ہے جب ہمارے اور آپکے امام کے سرِ اقدس پر ابنِ ملجم عبد الرحمن نے میرے مولا پر ایسا وار کیا کہ میرے مولا کا سر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

انا للہ و انا الیہ رجعون
 

بیسویں کا دن آقا نے تڑپ کر گزارا۔  اکیسویں کی شب آئی۔  مولا علی علیہ السّلام  نے  وصیتیں  کرنا شروع کی۔

میں تم دونوں کو وصیت  کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو

لیکن کیا آج ہم ان وصیتوں پر عمل پیرا ہیں؟؟؟؟

انسان کو جیسے ڈرنا چاہئے جیسے خوف زادہ ہونا چاہیے وہ ہے خدا وندِ عالم لیکن لوگوں کو ڈر نہیں لگتا ہے، اگر ڈر لگتا ہے تو دنیا سے ڈر لگتا ہے۔ کی لوگ کیا کہے گے، آپنے کو اچھا بنانے کے لئے، اپنی تعریف سننے کے لئے، آپنے کو  انچا دیکھنے کے لیے، لوگ کیا کیا فعل انجام دے رہے ہیں؟

مولا علی علیہ السّلام نے کیا فرمایا تھا؟ یہی تو فرمایا تھا۔

کی دیکھو کیسی کی غیبت نہ کرنا، کیسی کی برائی نہ کرنا، بے سہاروں کو سہرا دینا، یتیموں کا خیال رکھنا، اور ہمیشہ خُدا سے ڈرتے رہنا، اور دیکھو کبھی انکی نہ فرمانی نہ کرنا، کیسی کا دل نہ دکھانا۔ 

لیکن افسوس ہے کہ
  آج کل  معاشرہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ
 لوگ  غیبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی چغلی کرتے ہیں، یتیموں کا مال غضب کرتے ہیں، چھوٹ بولتے ہیں، برائی کرتے ہیں، حق کو باطل اور باطل کو حق  کہتے ہیں، غریبوں کی مدد نہیں کرتے ہیں، بے سہاروں کو سہارا نہیں دیتے ہیں، کیا ہم سب مولا علی کی وصیت پر عمل کرتے ہیں؟ بالکل نہیں۔
آج سے ہم لوگ عہد کرے کی ہم اس وصیت پر عمل کرے گے۔

دوسری وصیت یہ ہے کہ دنیا کے خواہشمند نہ ہونا، اگر چہ وہ تمہارے پیچھے لگے

فرمایا کہ دیکھو تم کبھی دنیا کے پیچھے مت بھاگنا بلکہ دُنیا تمہارے پیچھے بھاگے. 

لیکن آج کل لوگوں کی خواہشات بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں، ایک گھر ہے تو دوسرا بھی ہو جائے۔ انکے پاس یہ ہے تو میرے پاس بھی ہو جائے، یعنی ایک کے بعد ایک خواہشات لگی رہتی ہیں۔ اگر ہم سب دنیا کے طلب گار رہے گے تو کبھی خواہشات پوری نہ ہوگی۔ لمبی اُمیدِ آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ اسی لیے ہم سب کو چاہئے کہ ان وصیتوں پر عمل کرے۔

تیسری وصیت یہ ہے کہ جو کہنا حق کے لیے کہنا

دیکھو جو بھی گفتگو کرنا حق کے ساتھ کرنا ایسا نہ ہو کی دنیا کی لالچ میں آ کر حق کو بھول جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ دولت کی وجہ سے حق کو باطل کہہ دو ،اور باطل کو حق کہہ دو۔ ایسا نہ ہو کہ  سچ کو چھوٹ کہہ دو  اور چھوٹ کو  سچ کہہ دو۔ 

لیکن آج کل معاشرے میں دولت کی وجہ سے لوگ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم کہہ دیتے ہیں۔ 
آج لوگ دولت دُنیا میں اتنے زیادہ ڈوبے ہوۓ ہیں کی اگر اُنکو کوئ حق بات کی تعلیم دیتے ہیں تو لوگ حق بات سنتے بھی نہیں۔ بس حقیقی مولا علی علیہ السّلام کا عاشق وہی ہے جو عمل کے میدان میں ثابت قدم رہے وہی مولا کا حقیقی شیعہ ہے۔ کیا ہم عمل کرتے ہیں؟

چودی وصیت یہ ہے کہ جو کرنا ثواب کے لئے کرنا
 
دیکھو جو بھی عمل کرنا تو صرف اور صرف خوشنودی پروردگار ہو، دنیا کی خوشنودی کے لئےعمل  نہ کرنا۔ 

لیکن آج کل معاشرے میں لوگ دنیا کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں۔ اُنکو ثواب سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ 

آج ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم نماز پر كام كو ترجیع دیتے ہیں، اکثر افراد ایسے بھی مشاہدے میں آتے ہیں جو تنہائی میں الگ اور لوگوں کے درمیان الگ انداز سے عبادت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کوئی بھی عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے ۔

پانچویں وصیت یہ ہے کہ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا

دیکھو نماز سے غافل نہ ہونا۔ 
کیوں کہ نماز دین کا ستون ہے۔
 
نماز درس الٰہی ہے۔
 
نماز انسان کو برائیوں سے بچاتی ہیں۔

نماز آساسیں دین ہے۔ 

نماز خدا تک پہچنے کا ذریعہ ہے۔ 

لیکن آج لوگ نماز کی اہمیت کو نہیں سمجھتے کی نماز کیا ہے؟ وقت پر نماز نہیں پڑھتے۔ اگر بڑھ بھی لیتے ہے تو کام یاد آنے لگتے ہیں۔ نماز سے نہ کہو کہ پہلے کام بلکہ کام سے کہو کی پہلے نماز پھر کام۔
*چھٹی وصیت یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا*
 
دیکھو قرآن کے بارے میں اللہ کو نہ بھولنا، کبھی قران سے غافل نہ ہونا۔ اسکے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا۔ 

قرآن کی تلاوت کرنے سے گھروں میں برکت ہوتی ہیں۔
  
قرآن ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔

مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہماری اکثریت تلاوت قرآن مجید سے غافل ہیں۔ 
گھر کے کام کے لیے ٹائم ہے لیکن تلاوت کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔تو کیا ہماری زندگی زندگی ہے۔ بالکل نہیں ہے۔ کیا ہم عمل کرتے ہیں۔

ساتویں وصیت یہ ہے کہ آپس میں میل ملاقات بنائے رکھنا

دیکھو پڑوسیوں، رشتےداروں اور سب سے میل ملاقات بنائے رکھنا۔کوئی اگر پڑوس میں بھوکا تو سب سے  پہلے جاکر کھانا دینا۔ کوئی بیمار ہے تو اسکی عیادت کو جانا۔ آپس میں امن و امان رکھنا۔ کبھی لڑائی جھگڑا نہ کرنا۔ 

لیکن آج کل معاشرے میں لوگ آپنے کو دیکھتے ہیں بس جو کچھ ہے بس ہم ہی ہے۔ اُنکو پڑوسیوں سے مطلب نہیں رہتا ہے۔ کیا ہمارے امام ہم سے  خوش ہوگئے کی ناراض ہوگئے۔


مولا علی علیہ السّلام نے یہ وصیت صرف حسن کے لیے نہیں کی  تھی۔ صرف حسین کے لیے نہیں کی  تھی۔ بلکہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے وصیت تھی جہاں تک میری تحریر جا رہی ہے۔ کی ہمیشہ تقویٰ الٰہی اختیار کرنا۔ آپنے ہر کام میں نظم و ضبط بنائے رکھنا۔ باہمی ملاقات بنائے رکھنا۔ یتیموں کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ غریبوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہنا۔ مسکینوں کا خیال رکھنا۔ 

کیا ہم سب ان باتوں پر عمل کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو آج عہد کریں کہ ہم ان وصیتوں پر غور وفکر کریں گے اور عملی زندگی میں نافذ کریں گے، یہی حقیقی شیعہ ہونے کی دلیل ہے۔

    اللہ ہم سب زیادہ سے زیادہ توفیق دے کہ ہم ویسے امام کے ناصر بنے جیسا ہمارا امام چہتا ہے۔

نہ گاہ اہل بیت کی بستی اُجڑ گئی

دنیا کے انتظام کی صورت  بگڑ گئی

اکیسویں کو دھوم قیامت کی پڑ گئی

غل پڑ گیا کہ باپ سے زینب بچھڑ گئی۔

لوگوں چلو خوزادیوں کا دم نکلتا ہے
تابوت بادشاہِ دو عالم نکلتا ہے۔


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.