![]() |
تحریر :- سیدہ ایلیا زیدی زیدپوری |
کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ علم امام علی علیہ السلام کے حدود کو بیان کرے کیونکہ آپ علیہ السلام کا علم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے ماخوذ ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اللہ تعالیٰ سے ماخوذ ہے آپ علیہ السلام کا علم کسبی نہیں تھا آپ علیہ السلام کا علم خدا کے فیضان کا نتیجہ تھا۔ قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات دکھائی دیتی ہیں جن میں انبیاء علیہ السلام کے علم پر بحث کی گئی ہے اور اللہ تعالی نے ہر جگہ واضح کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے علم کا منبع ذات خداوندی ہے اور انبیاء علیہ السلام براہ راست خدا کے شاگرد ہوتے ہیں اسی لیے انبیاء علیہ السلام کا علم حقیقی ہے اور اس میں باطل کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے.
مولا علی علیہ السّلام کو تعلیم و تربیت کا ایسا گہوارہ نصیب ہوا جو پوری دنیا میں کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ جب مولا علی علیہ السّلام اس دُنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپنے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زیارت کی۔ رسولِ خدا نے سب سے پہلے آپکے منھ میں آپنی زبان مبارک دی اور آپ اس زبان کو چوستے رہے۔ بچپن سے ہی آپکی تربیت دربارِ نبوّت میں ہوئی۔ اسی لیے رسولِ خدا نے تمام علوم چاہئے وہ شریعت کے ہو، چاہئے قرآن کے ہو، چاہئے حکمت کے ہو، چاہئے اخلاق کے ہو۔ چاہئے ظاہر یا باطن کے ہو، چاہئے حاضر یا غائب کے ہو، ہر علوم رسولِ خدا نے مولا علی علیہ السّلام کے اندر عطا کر دیے۔ اور دربارِ نبوی سے آپکو خطاب ملا۔ وہ ہے باب العلم کا۔
أنا مدينة العلم وعلي بابها
میں شہر علم علی اسکا دروازہ ہے
اسی لیے اسلام نے بھی علم حاصل کرنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے. اور بہت شدّت سے تاکید کی گئی ہے۔جیسا کہ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں رسولِ خدا نے ارشاد فرمایا۔ علم حاصل کرو گہوارے سے لے کر قبر تک۔ پھر فرمایا کی علم حاصل کرنے کے لیے تہمیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ علم ایک ایسی نفسی شی ہے کہ جس کے بینا انسان ادھورا ہے۔ علم ایک چراغ ہے جو جہل کی تاریکیوں کو آپنے نور سے ختم کرتا ہے ۔ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ نہ زمان کی، چاہئے کوئی بھی مذہب کا ہو، چاہئے وہ سیکھ، عیسائی ہو، چاہئے ہندو ، مسلم ہو، چاہئے کسی بھی مذہب کا انسان ہو وہ کسی بھی مذہب کے انسان سے علم حاصل کر سکتا ہے۔
مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا ۔
خدا وندعالم مال سب کو دیتا چاہئے اسکا دوست ہو یا دشمن مگر علم اسکو دیتا ہے جو خدا سے محبت کرتا ہو۔
اگر مولا علی علیہ السّلام کو جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے ہر رُخ ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ علم و عبادت ہو، یا اشیار و سخاوت، وغیرہ ہمیشہ فتح کا سہرا آپکے سر پر رہا۔ آپکے علم کو اپنوں نے بھی تقسیم کیا اور غیروں نے بھی تقسیم کیا۔
بہت ہی مشہور معروف واقعہ ہے۔
ایک مرتبہ سائل نے کہا اے خُدا گواہ رہنا میں تیرے گھر اور تیرے رسول کی مسجد سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ بس سائل کا یہ سننا تھا کہ مولا علی علیہ السّلام نے اپنی انگلی سے انگوٹی اُتارنے کا اشارہ کیا ۔ سائل سمجھ گیا اور مولا علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے انگوٹی اُتار لی۔ جب تک سائل نے بندوں سے سوال کیا تو کچھ عطا نہیں ہوا ۔ لیکن جب کہا اے اللہ میں ترے گھر سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ تو مولا علی علیہ السّلام نے انگوٹی دے کر اللہ کے گھر کی عزت کو بچا لیا ۔
یہ اندازے سخاوت سواے محمد و آل محمد کے کہیں نہیں ملے گا جن کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہ گیا ہو۔
مولا علی علیہ السّلام
فضائل و کمالات کا ایسا پیکار سمندر ہے اسمیں انسان جیتنا غوطہ لگاتا جائے اُتنا کم ہے۔
“تم جو چاہو مجھ سے پوچھ لو اس سے قبل کے تم مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اس وقت سے لیکر قیامت تک کہ درمیانی عرصہ کی جو بھی بات مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کرو گے جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے، اسے آگے سے کھینچنے والے، پیچھے سے دھکیلنے والے اور ان کی سواریوں کی منزل اور اس کے ساز و سامان سے لدے ہوئے پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ بھی بتاؤں گا کہ ان میں کون قتل کیا جائے گا اور کون اپنی موت مرے گا۔”
ہم سب کو چاہئے کہ مولا علی علیہ السّلام کے اقوال پر عمل کرے تو ہم لوگوں کی زندگی زندگی بن جائے گی۔ خدا ہم سب کو ذیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فذت برب الکعبہ
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.
انیسویں کی شب کو وقت افطار جنابِ اُم کلثوم نے اپنے پدر بزرگوار کے سامنے کھانا لاکر رکھا تو جو کی روٹی اور ایک پیالے میں نمک دودھ تھا ۔فرمایا بیٹی کیا تمہارے بابا نے ایک وقت میں دو غذائیں کب کھائی ہے۔ کیا تم چاہتی ہو کہ روزے قیامت تمہارا بابا دیر تک کھٹرا رہے؟ ایک غذا ہٹا لی گئی۔
اسکے بعد امام حسن سے فرمایا بیٹا ماہِ صیام کے کتنے دن ہے؟ عرض کی بابا گیارہ یا بارہ دن باقی ہے۔ اب علی اس سعادت سے محروم ہو جائے گا۔ امام حسن علیہ السّلام یہ سن کر گبھرا گئے عرض کی بابا جان آپنے کیا فرمایا۔ مولا علی علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
شب گزرنے کے بعد آپنے مسجد میں جانے کا ارادہ کیا تو آپکی مرغیوں نے آپکا دامن پکڑ لیا۔
اب مولا کسی طرح مسجد میں داخل ہوئے اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔
جب نماز صبح کا وقت آیا آپنے ابنِ ملجم کا شانا ہلایا اور فرمایا اُٹھو نماز پڑھو۔
اسکے بعد آپنے آذان دی اللہ اکبر نماز میں مشغول ہو گئے ۔ پہلی رکعت کا پہلا سجدہ تھا کی ملون صف سے آگے بڑھا اور زہر آلودہ تلوار سے آپکے سر پر وار کر دیا۔
?سجدہ میں شیر حق کا دوپارہ ہوا جو سر
ایک بار کانپنے لگے مسجد کے بام و در
اُبلا لہو کی ہو گئی محراب خوں سے تر
ایک زلزلہ سا بس ہوا نازل زمین پر
گردوں پہ جبرائیل پکارا غضب ہوا۔
سجدہ میں حق کے قتل امیرِ عرب ہوا۔
?پہونچی جو گوشِ حضرتِ زینب میں یہ صدا
رو کر جنابِ شبیرو شبر سے یہ کہا
جاؤ خدا کے واسطے مسجد میں تم ذرا
کہتا ہے کوئی قتلِ ہوئی شاہ لا فتا
کسنے کیا شہید امام حجاز کو
بابا آبھی تو گھر سے گئے تھے نماز کو
?یہ سن کے دوڑے جانب مسجد حسن حسین
دیکھا کی رو رہے ہے نمازی بہ شوروشین
اور خوں میں آپنے لوٹتے ہیں شاہ مشرقین
سر آپنا پیٹنے لگے زہرا کے نور عین
غم سے کلیجےدونوں کے سینوں میں پھٹ گے
چلا کے ہاے بابا کہا اور لیپٹ گے.
یہ کہتے تھے کہ شیر خُدا کو غش آ گیا
پردہ کے پاس آن کے زینب نے یہ کہا
بھائی حسین لوگوں سے اتنا کہوں ذرا
گھر جاؤ آپنے وقتِ ملاقات ہو چُکا
آتے ہیں غش پہ غش کون و مکاں کو
جی بھر کے دیکھنے دو ہمیں بابا جان کو
انیسویں کا دن آقا نے تڑپ کر گزارا بیسویں کی رات آپ کو بستر پر قرار نہ آتا تھا بیٹیاں پریشان بیٹھی تھی بیٹے پاس کھڑے تھے مولا ایک ایک کو حسرت سے دیکھ رہے تھے میرے مولا کو مدینہ کربلا یاد آ گیا۔
ہائے میرا حسن جسکو زہر دیا جائےگا۔ جنازے پر تیروں کی بارش ہوگی مرنے کے بعد جنازے سے تیر نکلے جائے گے۔
امام حسین کو دیکھا زخموں سے چور چور بدن ہوگا کوئی تلوار چلا رہا ہوگا کوئی نیزہ لگا رہا ہوگا میرے حسین کی نصرت کو کوئی نہ ہوگا۔
بیٹی زینب کبریٰ کو دیکھا بازو کے بوسے لینا شروع کیا بیٹی زینب نے پوچھا بابا آپ میرے بوسے کیوں لے رہے ہے ؟
مولا نے رو کر فرمایا بیٹی زینب ایک وقت وہ آئیگا کی تمہارے انہیں بازوں میں ظالم رسن باندھیں گے ۔ شہزادی نے فرمایا بابا جسکے اٹھارہ بھائی ہوں بھلا کسکی مجال جو میرے بازوں میں رسن باندھیں۔ مولا نے فرمایا بیٹی وہ وقت جب آئیگا جب نہ حسن نہ حسین ہوں گے نہ عباس ہوں گے نہ مسلم ہوں گے تمہیں شہر بہ شہر دیار بہ دیار بازاروں میں بے مقنع و چادر لے جایا جائے گا.
عالم میں شبِ ضربت اے مومینوں آی ہے
ہم تاریخی دُنیا میں ہر ستم کو چھائی ہے