ایک زمانے تک ہمارے ہاں منبروں پر علامہ رشید ترابی اور علامہ علی نقی نقن جیسے افراد جلوہ افروز ہوتے تھے جو بڑے سے بڑا اختلاف بھی اتنی شائستگی سے بیان کرتے تھے کہ کسی کو برا نہیں لگتا تھا۔ دور کیوں جائیں، گزشتہ سال تک علامہ طالب جوہری جیسی شخصیت ہمارے درمیان موجود تھی جو انہی خوبیوں سے متصف تھے۔ اکثر اوقات ان کا موضوع خلافت و امامت جیسا معرکۃ الآراء اختلافی موضوع ہوتا تھا، لیکن مجال ہے جو کسی مسلک کو کوئی بات بری لگ جائے۔ ان بزرگوں کی مجالس و محافل میں ہمارے اہلسنت برادران بھی ذوق و شوق سے شرکت کرتے تھے۔
لیکن سابقہ کچھ عشروں سے منبروں پر غیر ذمہ دار افراد نے قبضہ جمایا۔ ان میں بعض ذاکروں نے تو تو اپنا کردار ادا کیا، بعض ایسے معمّم افراد بھی سامنے آئے جن کے چٹکلوں کو دیکھتے ہوئے ان میں اور عام ذاکر میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یہ افراد اختلافات ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں جن میں دیگر مسالک یا ان کے مقدسات کی تحقیر و توہین کا پہلو سامنے آئے۔ اس سے ان افراد کو خوب داد اور واہ واہ ملتی ہے کیونکہ عوام انہی چٹکلوں کو پسند کرتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے؛ گاڑی میں ایکسیلیریٹر، بریک اور کلچ ہوتے ہیں اور پانچ گيئر، لہذا تین کو پاؤں کے نیچے رکھیں اور پانچ کو ہاتھ میں رکھیں۔
ان افراد کی وجہ سے عمومی شیعہ ذہن ایسا ہو گیا جیسے وہ ایران میں رہتے ہوں۔ کراچی کی بات کریں تو ان کی ذہنیت سازی انچولی کے مطابق ہو گئی۔ بس جی حق بیان کرنا چاہیے، اور اپنے تئیں اس حق کو بیان کرنے کے لئے ہر انداز جائز سمجھتے ہیں۔ اسلاف کی "ہم زیستی" اور تبلیغ کی روش ان کے نزدیک ڈر اور خوف کی علامت ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ آئمہ ع کے ادوار میں بھی ایسے جیالے شیعہ ہوا کرتے تھے جو سمجھتے تھے کہ حق کو چھپانا کیوں؟ آئمہ ع جب تقیہ اور ہم زیستی کا حکم دیتے تھے تو اس کو ڈر اور خوف کی علامت سمجھتے تھے، لیکن ان کی انچولی ذہنیت ان کو مجبور کرتی تھی کہ وہ قیام کرنے والے زیدیوں سے جا ملیں کیونکہ وہ حق بیان کرنے اور قیام کرنے سے ڈرتے نہیں تھے۔ یہ لوگ آئمہ ع کی بصیرت اور فہم کو درک نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ اپنے زمانے کے امام سے دور ہو گئے۔
آج بھی یہ ذہنیت موجود ہے جو کٹ مرنے پر یقین رکھتا ہے۔ حالانکہ آئمہ ع کا تقیہ کا حکم اب بھی جاری و ساری ہے، اور تا قیام مہدی آخر الزمان عج جاری رہے گا۔ ایک اور مصیبت یہ ہے کہ تقیہ سے مراد یہاں خوف لیا جاتا ہے، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔ خوف سے عقیدہ چھپانے کو تقیہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ "تقیہ خوفی" محض تقیہ کی ایک قسم ہے جو انتہائی مجبوری میں جائز ہو جاتا ہے، لیکن تقیہ صرف خوف کے لئے نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں دیگر انسانوں کے ساتھ "ہم زیستی" کے جذبے کے تحت ایسی باتوں سے گریز کرنا جس کی وجہ سے انتشار پھیلے، یہ بھی تقیہ ہے جس کو "تقیہ مداراتی" کہتے ہیں۔
آپ منبروں سے اشاروں کنایوں میں بات کریں، دوسرا بخوبی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں اور کیوں۔ یہ روش آئمہ ع کی سیرت کے خلاف ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم ایران میں نہیں رہ رہے، نہ تو دنیا کا ہر ملک ایران ہے اور نہ کراچی کا ہر محلّہ انچولی ہے۔ کسی بھی کثیر المشرب جگہ پر رہنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جیسے آپ چاہتے ہیں کہ اشاروں کنایوں میں آپ کو اور آپ کے مقدسات کو کچھ نہ کہا جائے تو ویسے ہی دیگر افراد کو بھی یہ حق دیں۔ پاکستان کے زمینی حالات ایران سے مختلف ہیں، وہاں سے ہر رسم اور ہر چیز درآمد کرنے سے گریز کریں، اس کے لئے پاکستان کے حالات کو ضرور مدنظر رکھیں۔
آپ باہم اختلافی امور پر بھی گفتگو کر سکتے ہیں، لیکن عوام الناس میں اس طرح کے موضوعات سے گریز کریں۔ علاوہ ازیں اختلاف کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس طرح سے اپنی بات شائستگی سے پہنچائیں کہ دیگر انسانوں کی دل آزاری نہ ہو اور طرفین میں موجود فسادیوں کو کوئی موقع نہ ملے۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو باہم شائستگی سے رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور مملکت خداداد پاکستان کو تمام آفات اور شرانگیزیوں سے دور رکھے۔
آمین
سید جواد ضوی